ساحل آن لائن - سچائی کا آیئنہ

Header
collapse
...
Home / ساحلی خبریں / وقف بورڈ انتخابات بروقت منعقد ہونگے، ووٹرز فہرست کا اجراءعنقریب : تنویر سیٹھ

وقف بورڈ انتخابات بروقت منعقد ہونگے، ووٹرز فہرست کا اجراءعنقریب : تنویر سیٹھ

Thu, 28 Jul 2016 03:55:46  SO Admin   S.O. News Service

بنگلورو۔27 جولائی (عبدالحلیم منصور؍ایس او نیوز) ریاستی وزیر ربائے ابتادئی و ثانوی تعلیمات، اوقاف و اقلیتی بہبود تنویر سیٹھ نے آج اس بات کی دہرایا ہے کہ ریاستی وقف بورڈ کی 5 سالہ معیاد 18 اگست کو ختم ہونے وال ہے، اور حکومت وقف بورڈ انتخابات کو ٹالنے کے حق میں نہیں ہے اور بروقت انتخابات منعقد کئے جائیں گے۔ ریاستی وقف بورڈ دفتر میں اخباری نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے بتایا کہ سابقہ الیکشن میں ووٹرس کی تعداد 599 تھی، اس مرتبہ ان کی تعداد 989 کو پہنچ گئی ہے، فوری طور پر ووٹرس کی فہرست شائع کی جائیگی، اور اس کے بعد کیلنڈر آف ایوونٹ کا اعلان کیا جائیگا۔ انہوں نے بتایا کہ اوقافی املاک کے تحفظ کے مقصد سے ہر ضلع میں ڈپٹی کمشنر کی قیادت میں وقف پروٹکشن کمیٹی کی تشکیل سے متعلق موجود احکامات کو، مانپاڑی رپورٹ کے مسترد ہونے کی بنیاد پر مسترد کردیا گیا تھا، اسے دوبارہ جاری کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں۔ انہوں نے بتایا کہ سپریم کورٹ نے ریاست میں چار وقف ٹربیونل قائم کرنے کے احکامات دئے ہیں، جس کے تحت ابتدائی مراحل میں بنگلورو میں ٹربیونل کے قیام کا فیصلہ لیا گیا ہے، جس کیلئے حج اور ارکان کے تقرر سے متعلق ریاستی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس سے درخواست کی جائیگی۔ انہوں نے بتایا کہ نئے سے مقرر 177 ملازمین کی تنخواہیں جاری کرنے کیلئے وقف بورڈ کے پاس فنڈ نہیں ہے، کیونکہ وقف بورڈ کی مالی حالت کا انحصار وقف کانٹری بیوشن پر ہوتا ہے، جسے مناسب طریقہ سے جمع نہیں کیا جارہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ وقف بورڈ کیلئے ضلعی سپرنٹنڈنٹ آف پولیس کی قیادت میں قائم ہونے والے ٹاسک فورس کی منظوری سے متعلق بتایا کہ ان کی تنخواہیں محکمہ داخلہ کے ذریعہ فراہم کی جائے۔ جناب تنویر سیٹھ نے مزید بتایا کہ وزارت سنبھالنے کے بعد انہوں نے 5211 اکمہ کرام اور 4960 موذنین کا شاہرہ برائے اپریل تا جون جاری کردیا ہے۔ ان کے مطابق وقف ایکٹ 2013 کے مطابق نئے ضوابط کی تشکیل کیلئے ماہرین کے ذریعہ تشکیل شدہ کمیٹی کی رپورٹ موصول ہوئی ہے، جس میں چند ترمیمات کرتے ہوئے اسے قطعی مشکل دینے کے علاوہ وقف ایکٹ کو اردو اور کنڑی زبان میں شائع کرنے کے علاوہ تقسیم کیا جائیگا، تاکہ عوام میں اوقاف سے متعلق مشعور بیدار ہو۔ انہوں نے بتایا کہ بیلہلی کی وقف املاک سے متعلق عنقریب وزیر اعلیٰ کی قیادت میں اجلاس منعقد کیا جائیگا۔ ایک سوال کے جواب میں وزیر موصوف نے بتایا کہ ریاست میں ہزاروں قبرستان موجود ہیں، مگر اس کے ریکارڈس درست نہیں ہیں، اس خصوص میں عنقریب وزیر مالگذاری سے ملاقات کرتے ہوئے ان قبرستانوں کے دستاویزات تیار کرنے کیلئے اقدامات کئے جائیں گے۔ انہوں نے بتایا کہ 1965 گزٹ کے تحت آنے والے تمام اوقافی املاک کا سروے مکمل کرلیا گیا ہے، ان کے ریکارڈس بھی تیار ہیں، جبکہ 1985 اور 1995 کے گزٹ میں آنے والی وقف املاک کا سروے ہونا باقی ہے، اس خصوص میں 7986 فائلس زیر التوار ہیں، جن میں 1800 ضلع وقف دفاتر، 3900 اسسٹنٹ کمشنر اور بقیہ ڈپٹی کمشنر و فاتر میں زیر التوا رہیں، جس کے پیش نظر جس طرح ڈپٹی کمشنر دفتر میں محکمہ مزراعی کا کلرک ہوتا ہے، اس طرح اوقاف سے متعلق ایک کلرک مقرر کرنے کیلئے حکومت پر دباو¿ ڈالا جائیگا۔ اسی طرح ڈیویژنل سطح پر وقف بورڈ کے اڈیشنل چیف ایگزی کیٹیو افسران کے تقرر پر غور کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق امسال اقلیتی بہبود کیلئے 1374 کروڑ کا فنڈ مختص ہے۔ وزیر اعلیٰ فنڈ کے تحت اقلیتی کالونیوں کی ترقی کیلئے 75کروڑ مختص ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ وہ دھڑا دھڑ اسکیم جاری کرنے کے بجائے مسلمانوں کی ضرورتوں کو محسوس کرتے ہوئے نئے منصوبے جاری کریں گے، جن میں تعلیم، صحت، روزگار اور رہائش کو ترجیح دی جائیگی، جس کے تحت سرکاری رہائشی منصوبوں کے مستحقین کو بنیادی رقم بطور قرضہ فراہم کی جائیگی، جو یہ لوگ حکومت کے پاس جمع کریں گے۔ ان کے مطابق مسلم مسائل کے حل کیلئے متحد ہوکر کوشش کرنے کے مقصد سے وزیر برائے شہری ترقیات و حج آر روشن بیگ کی صدارت میں مسلم لیجسلیچرز فورم تشکیل دی گئی ہے، جس میں رکن کونسل عبدالجبار سکریٹری ہوں گے۔ انہوں نے بتایا کہ اقلیتوں کیلئے فوری طور پر بیاک لاگ جاری کرنے کی کوشش ہوگی۔

اردو اسکولوں کی ترقی: جناب سیٹھ نے واضح طور پر بتایا کہ بحیثیت اردو دان وہ اردو اسکولوں کی فلاح و بہبود کے پابند رہی ںگے، جس کیلئے ریاست کے 4800 اردو اسکولوں کی نگرانی کی ذمہ داری کرناٹکا اردو اکادمی کو سونپنے پر غور کیا جارہا ہے۔ ان کے مطابق اردو نصابی کتب کی تقسیم کا عمل مکمل کرلیا گیا ہے۔ ”نلی۔کلی“ کتابوں کے اردو ترجمے کیلئے اقدامات کئے جارہے ہیں، تمام اردو اسکولوں میں کنڑا اساتذہ کے تقرر کے علاوہ دیگر امور پر توجہ مرکوز کی گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اگر مقامی افراد علاقہ میں یا مساجد میں چندہ جمع کرکے یا زکوٰة کی رقم کے ذریعہ بھی اردو اسکولوں کی ترقی کیلئے آگے آئیں تو ان کا استقبال کیاجائیگا، اگر اردو اسکولوں میں پری پرائمری کی تجویز پیش کی جائے تو آدھنے گھنٹے میں انہیں منظوری دے جائیگی۔ ان کے مطابق مسلم انتظامیہ والے اسکولوں میں دینیات کی تعلیم پر کوئی روک نہیں ہے۔ ٹرانسپورٹ ہڑتال سے متعلق انہوں نے بتایا کہ پہلی مرتبہ محکمہ تعلیمات کی جانب سے تعلیمی اداروں میں تعطیل کا اعلان نہیں کیا گیا، کیونکہ ایسا ہوتا تو یہ ظاہر ہوتا کہ ہڑتال کیلئے حکومت کی حمایت حاصل ہے، اس لئے مقامی حالات کے تحت ڈپٹی کمشنرس کو اختیارات سونپے گئے۔ ان تین دنوں کی تعطیل کے پیش نظر خصوصی کلاس منعقد کئے جائیں گے۔ ان کے مطابق سابقہ حکومت کے دور میں نصاب میں مداخلت کرتے ہوئے جو تبدیلیاں کی گئی تھیں، انہیں ختم کردیاگیا ہے۔
 


Share: